حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے
by حیدر علی آتش

حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے
پیش روزن پس دیوار لیے پھرتی ہے

اس مشقت سے اسے خاک نہ ہوگا حاصل
جان عبث جسم کی بیکار لیے پھرتی ہے

دیکھنے دیتی نہیں اس کو مجھے بے ہوشی
ساتھ کیا اپنے یہ دیوار لیے پھرتی ہے

کسی فاسق کے تو منہ کو نہ کرے گی کالا
کیوں سیاہی یہ شب تار لیے پھرتی ہے

تو نکلتا نہیں شمشیر بکف اے قاتل
موت میرے لیے تلوار لیے پھرتی ہے

مال مفلس مجھے سمجھا ہے جنوں نے شاید
وحشت دل سر بازار لیے پھرتی ہے

کعبہ و دیر میں وہ خانہ برانداز کہاں
گردش کافر و دیں دار لیے پھرتی ہے

رنج لکھا ہے نصیبوں میں مرے راحت سے
خواب میں بھی ہوس یار لیے پھرتی ہے

چال میں اس کی سراپا ہے کسی کی تقلید
کبک کو یار کی رفتار لیے پھرتی ہے

در یار آئے ٹھکانے لگے مٹی میری
دوش پر اپنے صبا بار لیے پھرتی ہے

ہنستے ہیں دیکھ کے مجنوں کو گل صحرائی
پا برہنہ طلب خار لیے پھرتی ہے

سایہ سا حسن کے ہمراہ ہے عشق بے باک
ساتھ یہ جنس خریدار لیے پھرتی ہے

کسی صورت سے نہیں جاں کو فرار اے آتشؔ
تپش دل مجھے لاچار لیے پھرتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse