حسرت اے جاں شب جدائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسرت اے جاں شب جدائی ہے
by گویا فقیر محمد

حسرت اے جاں شب جدائی ہے
مژدہ اے دل کہ موت آئی ہے

تجھ سے مغرور کی جھکی گردن
پھر بھی اک شان کبریائی ہے

اس نے تلوار کو سنبھالا ہے
دیکھیے کس کی موت آئی ہے

پھر گیا جب سے وہ صنم بہ خدا
ہم سے برگشتہ اک خدائی ہے

بات سیدھی بھی وہ نہیں کرتا
کج ادائی سے کج ادائی ہے

آپ کو جانتا ہے آئینہ
صاف یہ اس کی خود نمائی ہے

تم مرے کج کلاہ کو دیکھو
یہ بھلا کس میں میرزائی ہے

دل میں آتا ہے راہ چشم سے وہ
خوب یہ راہ آشنائی ہے

ملے حسرت سے ہاتھ دیکھ کے حور
اے پری تیری وہ کلائی ہے

شانہ اس کا ہے پنجۂ خورشید
واہ کیا پنجۂ حنائی ہے

زاہدو قدرت خدا دیکھو
بت کو بھی دعوی خدائی ہے

ہاتھ پہنچا نہ پائے قاتل تک
طالعوں کی یہ نارسائی ہے

کعبے جانے سے منع کرتے ہیں
کیا بتوں کے ہی گھر خدائی ہے

حسن نے ملک دل کیا تاراج
حضرت عشق کی دہائی ہے

منہ ہے گویاؔ کا اس کا بوسہ لے
بات دشمن نے یہ بنائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse