حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں
by اکبر الہ آبادی

حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں
تمہارے معتقد گبرو مسلماں ہوتے جاتے ہیں

الگ سب سے نظر نیچی خرام آہستہ آہستہ
وہ مجھ کو دفن کر کے اب پشیماں ہوتے جاتے ہیں

سوا طفلی سے بھی ہیں بھولی باتیں اب جوانی میں
قیامت ہے کہ دن پر دن وہ ناداں ہوتے جاتے ہیں

کہاں سے لاؤں گا خون جگر ان کے کھلانے کو
ہزاروں طرح کے غم دل کے مہماں ہوتے جاتے ہیں

خرابی خانہ ہائے عیش کی ہے دور گردوں میں
جو باقی رہ گئے ہیں وہ بھی ویراں ہوتے جاتے ہیں

بیاں میں کیا کروں دل کھول کر شوق شہادت کو
ابھی سے آپ تو شمشیر عریاں ہوتے جاتے ہیں

غضب کی یاد میں عیاریاں واللہ تم کو بھی
غرض قائل تمہارے ہم تو اے جاں ہوتے جاتے ہیں

ادھر ہم سے بھی باتیں آپ کرتے ہیں لگاوٹ کی
ادھر غیروں سے بھی کچھ عہد و پیماں ہوتے جاتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.