حرف تم اپنی نزاکت پہ نہ لانا ہرگز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حرف تم اپنی نزاکت پہ نہ لانا ہرگز
by میر مہدی مجروح

حرف تم اپنی نزاکت پہ نہ لانا ہرگز
ہاتھ بیداد و ستم سے نہ اٹھانا ہرگز

تم بھی چوری کو یقیں ہے نہ کہو گے اچھا
اب ہمیں دیکھ کے آنکھیں نہ چرانا ہرگز

عشق ہے ایک مگر آفت نو ہے ہر دم
یہ وہ مضموں ہے کہ ہوگا نہ پرانا ہرگز

یہی انداز تو ہیں دل کے اڑا لینے کے
ان کی تم نیچی نگاہوں پہ نہ جانا ہرگز

سبب قتل محبت ہے اگر اے ظالم
تو مرا جرم کسی کو نہ بتانا ہرگز

دل خوں گشتہ کا ہو راز نہ افشا اے چشم
اشک گل رنگ کا ٹپکا نہ لگانا ہرگز

ہوں تنک ظرف نہ جھیلوں گا شراب پر زور
پردہ یکبار نہ چہرے سے اٹھانا ہرگز

ہم سے بیمار بھی جاں بر کہیں ہوتے ہیں مسیح
تم یہاں آ کے نہ تکلیف اٹھانا ہرگز

جنس نایاب کے ہوتے ہیں ہزاروں گاہک
تم پتا اپنا کسی کو نہ بتانا ہرگز

میں تو کیا اس سے تو موسیٰ بھی نہ سر بر آئے
امتحاناً ہمیں جلوہ نہ دکھانا ہرگز

جو چلا تیر ستم دل سے وہ گزرا اے چرخ
تیرا خالی نہ گیا کوئی نشانا ہرگز

ذکر بربادی دہلی کا سنا کر ہمدم
نیشتر زخم کہن پر نہ لگانا ہرگز

آب رفتہ نہیں پھر بحر میں پھر کر آتا
دہلی آباد ہو یہ دھیان نہ لانا ہرگز

وہ تو باقی ہی نہیں جن سے کہ دہلی تھی مراد
دھوکا اب نام پہ دہلی کے نہ کھانا ہرگز

گیتی افروز اگر حضرت نیر رہتے
اتنا تاریک تو ہوتا نہ زمانا ہرگز

اب تو یہ شہر ہے اک قالب بے جاں ہمدم
کچھ یہاں رہنے کی خوشیاں نہ منانا ہرگز

در مے خانہ ہوا بند صدا یہ ہے بلند
یاں حریفان قدح خوار نہ آنا ہرگز

اللہ اللہ وہ نواب علائی کے کلام
جن سے رنگیں نہیں بلبل کا ترانا ہرگز

تو تو ہے انورؔ و میکشؔ کی جدائی کا نشاں
دل پر درد سے اے داغ نہ جانا ہرگز

صوت بلبل طرف انگیز سہی پر ہمدم
درد فرسودہ دلوں کو نہ سنانا ہرگز

میں ہوں اک مجمع احباب کا بچھڑا گلچیں
مجھ کو گلدستۂ رنگیں نہ دکھانا ہرگز

جمع ہے مجمع احباب فضا میں تیری
اے تصور یہ مرقع نہ مٹانا ہرگز

دل میں ہیں حسرت و اندوہ کے انبار لگے
اتنا یکجا نہ کہیں ہوگا خزانا ہرگز

ساقیٔ بزم تری طرز تغافل کے نثار
درد مے کا بھی ادھر جام نہ لانا ہرگز

قہر لائیں گے یہ طالع جو ذرا بھی چیتے
اے فلک خواب سے ان کو نہ جگانا ہرگز

محفل عیش سے گر حظ ہو اٹھانا اے دوست
ہم سے آزردہ دلوں کو نہ بلانا ہرگز

دار فانی میں نہ کر فکر قیام اے ناداں
گزر سیل ہے یاں گھر نہ بنانا ہرگز

جن کے ایوان تھے ہم پلۂ قصر قیصر
ان کی ملتا نہیں قبروں کا ٹھکانا ہرگز

وہ گئے دن جو چمن زار میں دل لگتا تھا
سچ ہے یکساں نہیں رہتا ہے زمانا ہرگز

ہم صفیران چمن سب ہوئے گرم پرواز
اب خوش آتا نہیں گلزار میں جانا ہرگز

زغن و زاغ کی گلشن میں صدا ہے ہر سو
مرغ خوش نغمہ نہ آواز سنانا ہرگز

قصر حالی کے حوالی میں ذرا تم مجروحؔ
اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بنانا ہرگز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse