حجاب راز فیض مرشد کامل سے اٹھتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حجاب راز فیض مرشد کامل سے اٹھتا ہے
by شیر سنگھ ناز دہلوی

حجاب راز فیض مرشد کامل سے اٹھتا ہے
نظر حق آشنا ہوتی ہے پردہ دل سے اٹھتا ہے

جلا جاتا ہوں بار سوز غم مشکل سے اٹھتا ہے
وہ اشکوں سے نہیں بجھتا جو شعلہ دل سے اٹھتا ہے

کہاں خنجر بھی دست ناوک قاتل سے اٹھتا ہے
نزاکت سے حنا کا بار بھی مشکل سے اٹھتا ہے

یہ کس نے ڈال دی بحر تلاطم خیز میں کشتی
یہ شور ہرچہ باد اباد کیوں ساحل سے اٹھتا ہے

کشیدہ جس سے تم ہوتے ہو کوئی رخ نہیں کرتا
گراتے ہو نظر سے تم جسے مشکل سے اٹھتا ہے

یہ آنسو کسمپرسی کس کے ماتم میں بہاتی ہے
جنازہ آج کس کا کوچۂ قاتل سے اٹھتا ہے

مگر تاثیر پیدا ہو گئی مجنوں کے نالوں میں
کہ پردہ آج دست لیلی محمل سے اٹھتا ہے

رخ بے پردہ ان کا یاد آتا ہے شب ہجراں
حجاب ابر جب روئے مہ کامل سے اٹھتا ہے

لگا دی آتش خاموش کیا سوز محبت نے
الٰہی خیر دود آہ سوزاں دل سے اٹھتا ہے

کیا شرمندہ اتنا سخت جانی نے نزاکت سے
خجالت سے سر ان کے سامنے مشکل سے اٹھتا ہے

کلیجہ تھام لیں دیدار جاناں دیکھنے والے
بس اب پردہ رخ رشک مہ کامل سے اٹھتا ہے

چلے احباب آغوش لحد میں چھوڑ کر مجھ کو
کہ ہمدردی کا جذبہ پہلی ہی منزل سے اٹھتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse