حب الوطنی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حب الوطنی
by ماسٹر رام چندر

حب الوطنی ایک نیکی نایاب ہے اور اس سے ہماری یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے ملک کو اس قدر عزیز رکھتا ہو کہ اس کو نہ چھوڑے بلکہ ہم حب وطن اس کو کہتے ہیں جو ہمیشہ اس کی رفاہ اور بہبود کی طرف مساعی ہو اور اس کے فائدے کے واسطے جان و مال کا دریغ نہ کرے۔

بعض صاحب یہ کہیں گے کہ ایسی نیکی خیالی ہے، وہ وجود میں نہیں لیکن یہ محض غلط ہے۔ بہت آدمی زمانہ سابق میں ایسے ہوئے ہیں کہ انہوں نے وطن کی بہبود کے واسطے اس قدر کوشش کی ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا اور اس زمانے میں بھی ایسے آدمی اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں کہ وہ دل وجان سے اپنے ملک کی بہبود چاہتے ہیں لیکن افسوس تو یہ ہے کہ یہ نیکی ہندوستانیوں میں نہیں پائی جاتی۔ یہاں کوئی بھی اپنے ملک کی رفاہ کے واسطے ہاتھ پیر نہیں ہلاتا اور جس کو دیکھو وہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے کئے سے کیا ہوتا ہے۔

منجملہ اور باعث عدم وجود اس نیکی کے اہل ہند میں یہ ہے کہ یہاں کے باشندے اقوام مختلفہ میں منقسم ہیں اور مختلف مذاہب رکھتے ہیں۔ اس سبب سے کوئی ایک دوسرے کی رفاہ کا خیال نہیں کرتا۔ کم ہمتی جو اہل ہند کا خاصہ ہے، اس کے باعث سے وہ ہمیشہ غلامی میں رہے ہیں اور دیکھئے کب تک رہیں گے۔ ان کو آزاد گورنمنٹ کا تصور بھی نہیں۔ یہ اثر تعلیم کا ہے جو یہاں کے لوگ پاتے آئے ہیں۔ اہل ہند میں سے کسی کو بھی کبھی دیکھا ہے کہ وہ حب الوطنی کو کار فرما کے دخیل کاروبار گورنمنٹ ہو۔ اس حال میں یہاں کے باشندوں کو بہت ضرورت واسطے تحصیل علوم مختلفہ کی ہے، بدون اس کے ان کی آنکھیں کبھی نہیں کھلیں گی۔

مطالعہ تواریخ آزاد قوموں کا سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ ان کی عالی ہمتی اور حب الوطنی کو دیکھ کر انھیں بھی عزم آوے اور ایک روز داغ غلامی سے بری ہوں۔ اہل اسپارٹا کو جب ہم اپنے ہم وطنوں سے مقابلہ کرکے دیکھتے ہیں تو بجز خجالت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ سے ایسا دریافت ہوتا ہے کہ اسپارٹا کی عورتیں اس قدر عالمی ہمت اور محب الوطن تھیں کہ ان کے حال کے سننے سے یہاں کے مردوں کو شرم آوے گی۔ ذکر ہے ملک اسپارٹاکی ایک عورت کا، جس کا لڑکا لڑائی پرچڑھا تھا، اس کی ماں نے اس کو ایک ڈھال دی اور یہ مردانہ نصیحت کی کہ یا تو اس ڈھال کو لے آئیو اور یا اس پر پڑ کر آئیو اور اس سے مراد تھی کہ لڑائی میں بھاگنے اور وہاں ڈھال کو پھینک آنے سے اس پر مردہ پڑ کر آنا بہتر ہے۔

واضح ہو کہ ان لوگوں میں یہ دستور تھا جو شخص لڑائی میں مقتول ہوتا تھا اس کو ڈھال پر اٹھا لاتے تھے۔ ایک عورت نے جب سنا کہ اس کا لڑکا اپنے ملک کے واسطے لڑتے ہوئے مارا گیا تو اس نے بدون اظہار تاسف اور بھرنے آہ کے بادل شادیہ کلمہ زبان پر لایا کہ میں نے اسے اسی روز کے واسطے جنا اور پالا تھا۔

لیوکرا کی لڑائی ہو چکی تھی، ان لوگوں نے جن کے لڑکے بالے اس لڑائی میں مارے گئے تھے، بت خانوں میں جاکر شکریہ جناب باری کیا اور کہا کہ ہمارے لڑکے اپنے فرض سے ادا ہوئے اور جن کے لڑکے بقید حیات رہے تھے وہ مغمو م ہوئے۔ سبحان اللہ کیا ہمت اور کیا حب الوطنی ہے کہ زبان اس کے بیان سے لال ہے۔ ایک یونانی کا قول تھا کہ آدمیوں کی فصیل خشت کی فصیل سے بہتر ہے اور وہ لوگ جو قلعہ کے اندر پناہ لیتے ہیں ان میں اور نامردوں میں کچھ فرق نہیں ہے۔

ایک بار بہت بڑا بادشاہ ایران کا بہ جمعیت کثیر یونان پر حملہ آور ہوا، اور تھوڑے سے آدمیوں سے کہ اس بادشاہ کی فوج کے مقابلے میں ان کی کچھ بھی حقیقت نہ تھی، ایک یونانی سردار اس کے مقابل ہوا۔ بادشاہ نے اس کو حقیر سمجھ کر کہلا بھیجا کہ تو لڑائی چھوڑ دے اور میری اطاعت کرلے۔ جواب میں سردار نے کہا کہ آ اور جو تجھ سے ہماری جان لی جاوے تو لے جا۔ دیکھو یہ کتنا دلیری کا کلام ہے، باوجود اس بات کے کہ ان لوگوں کے سر پر موت کھیلتی تھی لیکن حب الوطنی اس بات پر مقتضی نہ ہوئی کہ نامردانہ میدان جنگ سے بھاگیں اور اپنے ملک کو تباہی میں ڈالیں۔ جب بعض اشخاص نے کہا کہ شاہ ایران کی اس قدر فوج ہے کہ ان کے تیروں سے آفتاب چھپ جائےگا، اس وقت ایک یونانی نے مردانہ جواب دیا کہ پس ہم تپش آفتاب سے بچ کر سایہ میں لڑیں گے۔ یہ چند مثالیں کفایت کرتی ہیں۔ یہ تو بہت مشکل کام ہیں۔ ہمارے ہم وطن تو ادنی باتوں کی طرف جن سے رفاہ خلق متصور ہے، توجہ نہیں کرتے۔ دیکھئے ہندوستان کے کب دن پھرتے ہیں۔

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse