حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر
by منیرؔ شکوہ آبادی

حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر
پڑھ لیا قسمت کا لکھا لوح تربت دیکھ کر

اس قدر بے خود ہوا آثار وحشت دیکھ کر
آئینہ سے نام پوچھا اپنی صورت دیکھ کر

دیکھیے محشر میں بھی صورت دکھائے یا نہیں
صبح بھاگی ہے شب ہجراں کی ظلمت دیکھ کر

جام کوثر دست ساقی میں نظر آیا مجھے
اٹھ گیا آنکھوں کا پردہ ابر رحمت دیکھ کر

رات دن کے مخمصے سے اے جنوں پائی نجات
ابلق ایام بھاگا میری وحشت دیکھ کر

تیرے کوچے میں ترا جلوہ نظر آیا مجھے
صانع جنت کو دیکھا باغ جنت دیکھ کر

منہ ہمارا جلوۂ دیدار کے لائق کہاں
اپنی صورت دیکھتے ہیں تیری صورت دیکھ کر

چار دیوار عناصر پر سفیدی پھر گئی
آنکھیں روشن ہو گئیں تیری صباحت دیکھ کر

وحشت دل حشر کے دن بھی رہے کاؤس طلب
کانٹے ڈھونڈھے ہم نے صحرائے قیامت دیکھ کر

چہچہے بلبل کے آواز کف افسوس ہوں
رنگ گل اڑ جائے میرا داغ حسرت دیکھ کر

ابر ادھر آیا ادھر مے خواروں کا بیڑا ہے پار
کشتیٔ مے مول کے دریائے رحمت دیکھ کر

آنسو پونچھے یاد آیا جب جوانی کا مزا
آنکھیں ملتے رہ گئے ہم خواب راحت دیکھ کر

برہمن کعبہ میں آیا شیخ پہونچا دیر میں
لوگ بے وحدت ہوئے ہیں تیری کثرت دیکھ کر

ہر گھڑی آتی ہے کانوں میں یہ آواز جرس
کون دنیا سے سفر کرتا ہے ساعت دیکھ کر

نشہ کے اسباب تزئیں میں بھی نشہ ہے ضرور
میری آنکھیں چڑھ گئیں مے خانہ کی چھت دیکھ کر

اب نہیں نازک مزاجی سے توجہ کا دماغ
اے اجل آنا کبھی ہنگام فرصت دیکھ کر

وہ موحد ہوں نہ رکھا دوسرے سے اتحاد
روح نے چھوڑا بدن کو ضد وحدت دیکھ کر

خون بلبل سے مگر سینچا ہے باغ دہر کو
ہم لہو برساتے ہیں پھولوں کی رنگت دیکھ کر

تیرے بندے سر جھکاتے ہیں بتوں کے سامنے
سجدے کرتا ہوں الٰہی تیری قدرت دیکھ کر

زخمیٔ تیغ تغافل پر نظر جمتی نہیں
چشم سوزن بند ہوتی ہے جراحت دیکھ کر

جی لگا کر یہ غزل کس طرح کہئے اے منیرؔ
بجھ گیا دل کوچ منزل کی عزیمت دیکھ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse