حال مرگ بے کسی سن کر اثر کوئی نہ ہو
Appearance
حال مرگ بے کسی سن کر اثر کوئی نہ ہو
سچ تو یہ ہے آپ سا بھی بے خبر کوئی نہ ہو
ہائے دشمن دیکھیں ان کے اٹھتے جوبن کی بہار
ہائے میں کوئی نہ ہوں میری نظر کوئی نہ ہو
اس تمنا پر کٹے مرتے ہیں مشتاقان قتل
یار پر قربان ہم سے پیشتر کوئی نہ ہو
وہ قیامت کی گھڑی ہے طالب دیدار پر
جب اٹھے پردا تو پردے کے ادھر کوئی نہ ہو
عشق میں بے تابیاں ہوتی ہیں لیکن اے حسنؔ
جس قدر بے چین تم ہو اس قدر کوئی نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |