حال دوربین کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حال دوربین کا
by ماسٹر رام چندر

واضح ہو کہ ایجاد ہونے ان آلات سے جن میں شیشوں وغیرہ کا کام پڑتا ہے، ان سے خلق کو نہایت فائدہ پہنچتا ہے۔ شروع میں سنہ ۱۴۰۰ عیسوی کے اول ہی اول ایک شخص فرنگی نے جس کا نام سیلونیو تھا اور جو شہر فلورنس میں کہ دار الخلافہ ملک کا ہے رہتا تھا، عینکوں کو ایجاد کیا تھا۔ اس سے جو بوڑھوں اور ضعیف نظر والے آدمیوں کو بلکہ اکثر جوانوں کو جو فوائد کثیر پہنچے، وہ سب پر روشن میں ہیں لیکن سب آلات مذکور الصدور میں دور بین نہایت نفیس اور مفید شیٔ ہے۔

اس آلہ مفید کے ایجاد ہونے کا حال مؤرخ اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ شہر مڈ برگ میں کہ ملک ہولنڈ میں واقع ہے، ایک عینک بنانے والے کا بیٹا اپنے باپ کی دکان پر دو شیشے کے ٹکڑوں سے کھیل رہا تھا اور وہ ایک شیشے کو تو انگلی سے اور دوسرے کو انگوٹھے سے پکڑ کے ایک کو دوسرے کی سیدھ میں رکھتا تھا اور ان کو آنکھ لگا کر دیکھتا۔ ان شیشوں کے ایک دوسرے کے نزدیک اور دور لے جانے سے ایک نیا تماشہ معلوم ہوتا تھا مثلاً برج گرجا گھر کے جو اور لوگوں کو چھوٹے سے اور دور نظر آتے تھے، وہ اس لڑکے کو بوساطت شیشوں مذکور کے بہت بڑے اور نزدیک معلوم ہوتے اور اس سے سوائے ایک عجیب بات اس نے یہ مشاہدہ کی کہ برج مذکور الٹے نظر آتے ہیں۔

جب یہ عجیب حال شیشوں کا اس لڑکے کے باپ نے معلوم کیا تو اس نے دوشیشوں کو ایک تختے پر لگایا، اس طور سے کہ وہ چاہے جہاں جڑے جا سکیں۔ اور اس ترکیب سے شروع میں ایک بڑی سی دور بین ہوئی اور اس کے ذریعہ سے فاصلہ کی چیزیں پاس اور صاف نظر آنے لگیں۔ جب گیلیلیو نے جو ایک بڑا حکیم ساکن لکنی کا تھا، حال اس آلہ جدید کا سنا تو اس نے اس کو کمال خوبی کو پہنچانے میں بہت کوشش کی۔ اس نے بجائے تختے کے ایک لمبی نلی کے دوسروں پر شیشوں کو جڑدیا اور ان میں سے اجرام فلکی کا مشاہدہ کیا اور اس ترکیب سے وہ صورت دوربین کی بن گئی جو بالفعل پائی جاتی ہے۔ حکیم مذکورہ نے بذریعہ اس دوربین کے بڑی بڑی باتیں نسبت اجرام فلکی کے معلوم کیں۔ مثلاً اس نے دریافت کیا کہ چار چاند گرد سیارہ مشتری کے گردش کرتے ہیں اور سطح کرہ آفتاب ہیں اور ان کی گردش سے اس نے تحقیق کیا کہ آفتاب گرد اپنے محور کے گھومتا ہے۔

علاوہ ازیں اس آلے کی وساطت سے یہ بھی دریافت ہوا کہ چاند میں پہاڑ اور گھاٹیاں ہیں اور ہزارہا ثوابت یعنی وہ سیارے جو ایک جا ساکن ہیں اور وہ بغیر دوربین کے نظر نہیں آتے ہیں۔ یہ سب باتیں سنہ ۱۶۱۰ء میں معلوم ہوئی تھیں۔ اس وقت سے دوربین میں ہمیشہ ترمیمیں اور ترقیتیں ہوتی گئیں اور زمانہ حال میں وہ اس قدر خوبی سے بنائی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ عجائبات فلکی معلوم ہوتے ہیں کہ پہلے وہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھے۔

فی الحقیقت دوربین مثل ایک ایسی سواری کے ہے جس کے ذریعے سے دور دور آسمان میں واسطے سیر اور مشاہدہ اجرام فلکی کے چلے جا سکتے ہیں۔ بذریعہ دوربین ہر مثل صاحب کے کہ اس سے ہر شیٔ چھ ہزار دفعہ زیادہ بڑی قد میں معلوم ہوتی ہے۔ سیارہ زحل اور اس کا حلقہ اور چاند وغیرہ اس قدر بڑے معلوم ہوتے ہیں گویا ہم اسی کروڑ میل کا سفر کر کے اس کے پاس جاکر اس کی سیر دیکھتے ہیں۔

اب ذرا غور کرنا چاہئے کہ اگر ہم بذریعہ دخانی گاڑی کے پچاس میل ایک گھنٹہ میں چلیں تو بھی اس فاصلہ بعید کو عرصہ سالوں میں طے کر سکیں گے۔ اس آلے کے ذریعے سے ہم ثوابت کو اس قربت سے مشاہدہ کر سکتے ہیں گویا ہم (۴۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰) میل طے کر کے ان کی سیر کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا فاصلہ بعید ہے کہ گو برابر ہم توپ کے گولے کی رفتار سے چلیں پھر بھی واسطے طے کرنے اس دوری کی کروڑوں برس ضروری ہیں۔ پس جب ایسی ایسی نہایت مشکل اور عجیب باتیں اس آلے سے عمل میں آتی ہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس آلہ کو واسطے سمجھنے اپنی خدائی کے اپنے بندوں کو عطا کیا ہے۔

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse