حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
by نظام رامپوری

حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
میرے کہنے کو بھلا تم نے سنا کون سے دن

لذتیں وصل کی کچھ میں نے بیاں کیں تو کہا
آپ کے واسطے دن ایسا ہوا کون سے دن

جب کہا میں نے وہ کیا دن تھے جو ملتے تھے تم
ہو کے انجان عجب ڈھب سے کہا کون سے دن

وصل کی شب ہے ملو آج تو دل کھول کے خوب
اے مری جان یہ جائے گی حیا کون سے دن

رشک آمیز جو کچھ میں نے کہا تو بولے
غیر کے ساتھ مجھے دیکھ لیا کون سے دن

ہر گھڑی دل میں رہا خوف بگڑ جانے کا
تیرے ملنے میں مزا ہم کو ملا کون سے دن

کون سا دن ہے جو بے چین نہیں ہو کے نظامؔ
بے قراری سے نہ اس در پہ گیا کون سے دن

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse