حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
Appearance
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
عید ہے اور ہم کو عید نہیں
چھیڑ دیکھو کہ خط تو لکھا ہے
میرے خط کی مگر رسید نہیں
جانتے ہوں امیدوار مجھے
ان سے یہ بھی مجھے امید نہیں
یوں ترستے ہیں مے کو گویا ہم
پیر مے خانہ کے مرید نہیں
خون ہو جائیں خاک میں مل جائیں
حضرت دل سے کچھ بعید نہیں
آؤ میرے مزار پر بھی کبھی
کشتۂ ناز کیا شہید نہیں
ہم تو مایوس ہیں مگر بیخودؔ
دل نا فہم ناامید نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |