جی چاہے گا جس کو اسے چاہا نہ کریں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جی چاہے گا جس کو اسے چاہا نہ کریں گے
by کرامت علی شہیدی

جی چاہے گا جس کو اسے چاہا نہ کریں گے
ہم عشق و ہوس کو کبھی یکجا نہ کریں گے

اے کاش چھٹیں عہد شکن بن کے جہاں میں
باز آئے وفاداری کا دعویٰ نہ کریں گے

گو حسن پرستی نہ ہو خاطر سے فراموش
خوش قامتوں کا یاد سراپا نہ کریں گے

نرگس کی شب تیرہ میں لوٹیں گے بہاریں
پر سرمگیں آنکھوں کی تمنا نہ کریں گے

بہلائیں گے سیر گل و شبنم سے دل اپنا
اس عارض گل رنگ کی پروا نہ کریں گے

انگاروں پہ لوٹیں گے پر ان شعلہ رخوں کے
نظارہ سے ہم آنکھ بھی سینکا نہ کریں گے

عصمت کا انہیں خوف ہے تقویٰ کا ہمیں پاس
نے کی ہے کبھی خواہش بے جا نہ کریں گے

بکنے کے شہیدیؔ کے برا مانیو مت جان
ہیں عاشق صادق کبھی ایسا نہ کریں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse