جی لیتی ہے وہ زلف سیہ فام ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جی لیتی ہے وہ زلف سیہ فام ہمارا
by بخش ناسخ

جی لیتی ہے وہ زلف سیہ فام ہمارا
بجھتا ہے چراغ آج سر شام ہمارا

ایسا کوئی گمنام زمانے میں نہ ہوگا
گم ہو وہ نگیں جس پہ کھدے نام ہمارا

اول تو نہ قاصد کو رہے کوئے صنم یاد
پہنچے تو فراموش ہو پیغام ہمارا

ہم گو کہ ہیں دیوانے مگر غرق یم اشک
یونان کے مانند ہوا نام ہمارا

مے پائی نہ پینے کو تو ہم پی گئے آنسو
اشکوں سے بھی ساقی نہ بھرا جام ہمارا

کعبے میں بھی وحشت کی رہی دست درازی
صد چاک کیا جامۂ احرام ہمارا

طفلی میں تھی اک دایہ ہیں اب چار کے کاندھے
آغاز سے کیا خوب ہے انجام ہمارا

اک آدھ رہے جسم مشبک میں ترا تیر
خالی نہ کبھی صید سے ہو دام ہمارا

کام اوروں کے جاری رہیں ناکام رہیں ہم
اب آپ کی سرکار میں کیا کام ہمارا

ناسخؔ کہیں جلد آ کے کہیں قاصد جاناں
خط لیجئے دلوایئے انعام ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse