جی جائے مگر نہ وہ پری جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جی جائے مگر نہ وہ پری جائے
by سخی لکھنوی

جی جائے مگر نہ وہ پری جائے
یا رب نہ ہماری دل لگی جائے

دل ہجر میں جائے یا کہ جی جائے
جس کا جی چاہے وہ ابھی جائے

اس گل کا نہ وصل ہو نہ جی جائے
کیونکہ میرے دل کی بے کلی جائے

تم لعل لب اپنے گر دکھاؤ
پھر سوئے یمن نہ جوہری جائے

اس غنچہ دہن کی بو نہ لائے
دکھلائے نہ منہ صبا چلی جائے

سوغات کی طرح پیش مجنوں
بیڑی اور میری ہتھکڑی جائے

ثابت ہے جب پہاڑ وحشت
جب تک دامن ہمارا سی جائے

غیروں کو تو مے پلائے ساقی
میں مانگوں تو صاف سن کے پی جائے

ہمراہ ہو پرورش علی بھی
یاں سے جو کربلا سخیؔ جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse