جی جاؤں جو بند ناطقہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جی جاؤں جو بند ناطقہ ہو
by شاد لکھنوی

جی جاؤں جو بند ناطقہ ہو
خاموش کہیں یہ بولتا ہو

جانباز جو تردد بھی ترا ہو
سو بار مرے پھر اٹھ کھڑا ہو

ذرے میں ہو نور مہر وش
تیرا جو کرم ہو کیا سے کیا ہو

کھل جائیں ہزاروں کوچہ زخم
تلوار چلے تو راستہ ہو

زلفوں پہ جو اس کے مر مٹا ہوں
تربت پہ درخت جال کا ہو

گھڑیوں کے ہیں پر غبار شیشے
مٹی کوئی دل نہ ہو گیا ہو

رنگین ہو قبائے تن لہو سے
جوگی ہوں لباس گیروا ہو

بخشے جو فلک غم زمانہ
غم خوار وہ ہوں کہ ناشتا ہو

ثانی ہے ترا محال اے بت
پیدا نہ خدا کا دوسرا ہو

تن خاک ہو ہوں وہ صاف طینت
میلا نہ کفن کا رونگٹا ہو

وہ بوسۂ لب مجھے کہ دشنام
درویش ہوں کچھ ملے بھلا ہو

یوں اے تپ غم جلا سراپا
سر تا قدم اک آبلہ ہو

اے دست خدا جو ہاتھ کی ہے
ہے شادؔ شکستہ پا نیا ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse