جی بھر کے کبھی یار کا جلوہ نہیں دیکھا
Appearance
جی بھر کے کبھی یار کا جلوہ نہیں دیکھا
دیکھا بھی تو اس طرح کہ گویا نہیں دیکھا
مرنے کا نہیں غم مگر اس بات کا غم ہے
اس نے مرے مرنے کا تماشا نہیں دیکھا
جھرمٹ میں رہے غمزۂ تمکین و حیا کے
خلوت میں بھی ان کو کبھی تنہا نہیں دیکھا
کس زور پہ کس جوش پہ ہے ان کی جوانی
تھمتے کبھی سینے پہ دوپٹہ نہیں دیکھا
آنکھوں میں پھرے اور وہ آنکھوں سے چھپے بھی
آنکھوں نے اس انداز کا پردہ نہیں دیکھا
خلوت میں جگرؔ یاد کیا کرتے ہو کس کو
ملتے تمہیں لوگوں سے زیادہ نہیں دیکھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |