جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
by ریاض خیرآبادی

جی اٹھے حشر میں پھر جی سے گزرنے والے
یاں بھی پیدا ہوئے پھر آپ پہ مرنے والے

چوس کر کس نے چھڑائی ہے مسی ہونٹھوں کی
سامنے منہ تو کریں بات نہ کرنے والے

شب ماتم کی اداسی ہے سہانی کتنی
چھاؤں میں تاروں کی نکلے ہیں سنورنے والے

ہم تو سمجھے تھے کہ دشمن پہ اٹھایا خنجر
تم نے جانا کہ ہمیں تم پہ ہیں مرنے والے

پی کے آئے ہیں کہیں ہاتھ نہ بہکے واعظ
داڑھی کتریں نہ کہیں جیب کترنے والے

سن ہی کیا ہے ابھی بچپن ہی جوانی میں شریک
سو رہیں پاس مرے خواب میں ڈرنے والے

ہاتھ گستاخ ہیں اٹھ جائیں نہ یہ دامن پر
بچ کے نکلیں مرے مرقد سے گزرنے والے

نزع میں حشر کے وعدے نے یہ تسکیں بخشی
چین سے سو رہے منہ ڈھانپ کے مرنے والے

اپنے دامن کو سنبھالے ہوئے بھولے پن سے
وہ چلے آتے ہیں دل لے کے مکرنے والے

صبر کی میرے مجھے داد ذرا دے دینا
او مرے حشر کے دن فیصلہ کرنے والے

آتی ہے حور جناں خلوت واعظ کے لئے
قبر میں اتریں گے منبر سے اترنے والے

تیرے عاشق جو گئے حشر میں یہ شور اٹھا
جائیں دوزخ میں دم سرد کے بھرنے والے

زیر پا دل ہی بچھے ہوں کہ ہیں خوگر اس کے
فرش گل پر بھی نہیں پاؤں وہ دھرنے والے

اشک غم ایسے نہیں ہیں جو امنڈ کر رہ جائیں
ہیں یہ طوفان مرے سر سے گزرنے والے

کیا مزا دیتی ہے بجلی کی چمک مجھ کو ریاضؔ
مجھ سے لپٹے ہیں مرے نام سے ڈرنے والے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse