جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
by فانی بدایونی
299807جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہےفانی بدایونی

جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
اب دل کا یہ عالم ہے نہ دنیا ہے نہ دیں ہے

گم ہیں رہ تسلیم میں طالب بھی طلب بھی
سجدہ ہی در یار ہے سجدہ ہی جبیں ہے

کچھ مظہر باطن ہوں تو کچھ محرم ظاہر
میری ہی وہ ہستی ہے کہ ہے اور نہیں ہے

ایذا کے سوا لذت ایذا بھی ملے گی
کیوں جلوہ گہ ہوش یہاں دل بھی کہیں ہے

مایوس سہی حسرتئ موت ہوں فانیؔ
کس منہ سے کہوں دل میں تمنا ہی نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse