جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
Appearance
جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی
گیسوئے عکس شب فرقت پریشاں اب بھی ہے
ہم بھی تو دیکھیں کہ یوں کیوں کر سحر ہو جائے گی
انتظار منزل موہوم کا حاصل یہ ہے
ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی
سوچتا رہتا ہے دل یہ ساحل امید پر
جستجو آئینۂ مد و جزر ہو جائے گی
درد کے مشتاق گستاخی تو ہے لیکن معاف
اب دعا اندیشہ یہ ہے کارگر ہو جائے گی
سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |