جیتے ہیں کیسے ایسی مثالوں کو دیکھیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جیتے ہیں کیسے ایسی مثالوں کو دیکھیے
by عزیز لکھنوی

جیتے ہیں کیسے ایسی مثالوں کو دیکھیے
پردہ اٹھا کے چاہنے والوں کو دیکھیے

کیا دل جگر ہے چاہنے والوں کو دیکھیے
میرے سکوت اپنے سوالوں کو دیکھیے

اب بھی ہیں ایسے لوگ کہ جن سے سبق ملے
دل مردہ ہے تو زندہ مثالوں کو دیکھیے

کیا دیکھتے ہیں آپ بہار نمو ابھی
جب ایڑیاں تک آئیں تو بالوں کو دیکھیے

طبقے زمین کے ہوں کہ اوراق آسماں
قدرت کے دل فریب رسالوں کو دیکھیے

ہمت کو دیکھیے کہ وہی مرد کار ہے
فوجوں کو دیکھیے نہ رسالوں کو دیکھیے

تقلید کیوں خیال و زباں میں کسی کی ہو
اپنے خیال اپنے مقالوں کو دیکھیے

دشمن پہ بھی نگاہ رہے عیب میں ہے وہ
یہ کیا کہ صرف چاہنے والوں کو دیکھیے

ہو سرسری نہ گور غریباں پہ اک نظر
ان کے دماغ ان کے خیالوں کو دیکھیے

ساقی کی چشم مست کا نظارہ کیجیئے
صہبا کو دیکھیے نہ پیالوں کو دیکھیے

دل دیکھیے کہ تکملۂ شوق ہو عزیزؔ
مسجد کو دیکھیے نہ شوالوں کو دیکھیے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse