جیتے جی کے آشنا ہیں پھر کسی کا کون ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جیتے جی کے آشنا ہیں پھر کسی کا کون ہے
by آغا اکبرآبادی

جیتے جی کے آشنا ہیں پھر کسی کا کون ہے
نام کے اپنے ہوا کرتے ہیں اپنا کون ہے

جان جاں تیرے سوا رشک مسیحا کون ہے
مار کر ٹھوکر جلا دے مجھ کو ایسا کون ہے

یہ سیہ خیمہ ہے کس کا اس میں لیلیٰ کون ہے
چنبر افلاک کے پردے میں بیٹھا کون ہے

ہم نہ کہتے تھے کہ سودا زلف کا اچھا نہیں
دیکھیے تو اب سر بازار رسوا کون ہے

وہ تو ہے بے نور اور یہ نور سے معمور ہے
چشم کو نرگس کہے گا ایسا اندھا کون ہے

دم بدم ہر بات میں کرتے ہو ٹھنڈی گرمیاں
آپ کی اکھڑی ہوئی باتوں پہ جمتا کون ہے

وادئ وحشت میں بھی ہمراہ ہیں آہ و فغاں
اپنے ہمدم ساتھ ہیں اے جان تنہا کون ہے

خیر ہے اے مہرباں کس نے انہیں سیدھا کیا
آپ کیوں بل کرتے ہیں زلفوں سے الجھا کون ہے

دختر رز سچ بتا تیری نظر کس پر پڑی
ٹٹیوں کی آڑ میں سے کس کو تاکا کون ہے

آج مقتل میں کھڑے کہتے ہیں وہ خنجر بکف
بول اٹھے چاہنے والا ہمارا کون ہے

چار دن جو کچھ تماشا دیکھنا ہے دیکھ لے
سیر کو پھر گلشن دنیا میں آتا کون ہے

باندھ کر تیغ و کفن جاتے ہیں اس قاتل کے پاس
ہم بھی دیکھیں روکنے والا ہمارا کون ہے

کیا تجاہل ہے کہ وہ فرماتے ہیں اغیار سے
میں نہیں پہچانتا مطلق کہ آغاؔ کون ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse