جہاں ہے مکتب ہستی سبق ہے چپ رہنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جہاں ہے مکتب ہستی سبق ہے چپ رہنا
by شاد عظیم آبادی

جہاں ہے مکتب ہستی سبق ہے چپ رہنا
بڑا گناہ یہاں ہے الف سے بے کہنا

شب فراق میں سائے سے ڈر کے کہتا ہوں
اجی یہ رات ڈرانی ہے جاگتے رہنا

چمن میں پھول کھلے باغ میں بہار آئی
عروس دہر نے گویا پہن لیا گہنا

ہماری آہ و بکا سے ہے جسم شوق قوی
یہ ہاتھ بایاں ہے اپنا وہ ہاتھ ہے دہنا

فغان بلبل شیدا نہ جانیے اس کو
بجا رہا ہے کوئی صحن باغ میں شحنہ

غم فراق میں اے آسماں نہیں موقوف
وہ جو سہائیں مجھے مجھ کو ہر طرح سہنا

نکال دے کہ ہے ایسے میں جوئے اشک رواں
برا ہے بات کا اے چشم دل میں لے رہنا

گلی میں یار کی ہو یا کسی خرابے میں
ہمیں تو حشر کے دن تک کہیں پہ مر رہنا

اثر بھی شادؔ کے شعروں میں ہے متانت بھی
یہ کہنہ مشق ہیں ان کی غزل کا کیا کہنا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse