جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
by آرزو لکھنوی

جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
وہیں ہے گنہ پہ ڈٹ کے گناہ کرنا

بتوں سے بڑھا کے میل نباہ کرنا
جہاں کے سفید کو ہے سیاہ کرنا

سکھایا ہے مجھ کو اس مری بے کسی نے
اسی کو ستم کا اس کے گواہ کرنا

لبھانے سے دل کے تھا تو یہ مدعا تھا
غریب کی زندگی کو تباہ کرنا

یہی تو ہے ہاں یہی وہ ادائے معصوم
الگ ہوئی جو سکھا کے گناہ کرنا

جفا سے بھی لیں مزہ نہ وفا کا کیوں کر
ہمیں تو ہر اک طرح ہے نباہ کرنا

یہ کہتا ہے چشم ہوش ربا کا جادو
تجھے ترے ہاتھ سے ہے تباہ کرنا

تری نظر سے سیکھا ہے آہ دل نے
جگر میں شگاف ڈال کے راہ کرنا

نظر میں نظر گڑائے ہے یوں وہ ظالم
کہ آرزوؔ اب کٹھن ہے اک آہ کرنا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse