جہاں میں کہاں باہم الفت رہی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جہاں میں کہاں باہم الفت رہی ہے
by غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

جہاں میں کہاں باہم الفت رہی ہے
مگر صرف صاحب سلامت رہی ہے

ہے افسوس اے عمر جانے کا تیرے
کہ تو میرے پاس ایک مدت رہی ہے

یہ طوفان اشک اس میں آنکھوں کی کشتی
تعجب ہے کیوں کر سلامت رہی ہے

اگرچہ تری یاد میں خوش ہوں لیکن
ان آنکھوں سے دیکھوں یہ حسرت رہی ہے

مت امید بوسے کی رکھ دلبروں سے
حضورؔ اب کسے اتنی ہمت رہی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse