جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا
by اکبر الہ آبادی

جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا
کہ مجھ کو دیکھ کے بسمل کو بھی سکون ہوا

غریب دل نے بہت آرزوئیں پیدا کیں
مگر نصیب کا لکھا کہ سب کا خون ہوا

وہ اپنے حسن سے واقف میں اپنی عقل سے سیر
انہوں نے ہوش سنبھالا مجھے جنون ہوا

امید چشم مروت کہاں رہی باقی
ذریعہ باتوں کا جب صرف ٹیلیفون ہوا

نگاہ گرم کرسمس میں بھی رہی ہم پر
ہمارے حق میں دسمبر بھی ماہ جون ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse