جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا
by نسیم بھرتپوری

جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا
زمیں پر کوئی تم سا پیدا نہ ہوگا

شراب محبت کو اے زاہدو تم
برا گر کہو گے تو اچھا نہ ہوگا

سر بزم دشنام دشمن کو دے کر
مجھے تم نے کیا دل میں کوسا نہ ہوگا

مری بے قراری کو کیا دیکھتے ہو
کبھی برق کو تم نے دیکھا نہ ہوگا

نسیمؔ اور کچھ فکر کیجے خدارا
اب اس نوکری میں گزارا نہ ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse