جہاں تیغ ہمت علم دیکھتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جہاں تیغ ہمت علم دیکھتے ہیں
by اسماعیل میرٹھی

جہاں تیغ ہمت علم دیکھتے ہیں
محالات کا سر قلم دیکھتے ہیں

جو بیٹھے تھے یاں پا بدامان ہستی
انہیں سر بہ حیب عدم دیکھتے ہیں

کمالات صانع پہ جن کی نظر ہے
وہ خوبی‌ مصنوع کم دیکھتے ہیں

نہیں مبتلا جو تن آسانیوں میں
انہیں دم بدم تازہ دم دیکھتے ہیں

نہیں جن کو جاہ و حشم کا تکبر
وہی لطف جاہ و حشم دیکھتے ہیں

شکم پروری جن کا شیوہ ہے ان کو
اسیر‌‌‌ جفائے شکم دیکھتے ہیں

بس اے رنگ و بو تو نہ کر ناز بیجا
خدا جانے کیا بات ہم دیکھتے ہیں

اڑاتے ہیں جو رخش ہمت کو سرپٹ
وہ منزل کو زیر قدم دیکھتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse