جہاں تک عشق کی توفیق ہے رنگیں بناتے ہیں
Appearance
جہاں تک عشق کی توفیق ہے رنگیں بناتے ہیں
وہ سنتے ہیں ہم ان کو سر گذشت دل سناتے ہیں
ادھر حق الیقیں ہے اب وہ آتے اب وہ آتے ہیں
ادھر انجم مری اس ذہنیت پر مسکراتے ہیں
شب غم اور مہجوری یہ عالم اور مجبوری
ٹپک پڑتے ہیں آنسو جب وہ ہم کو یاد آتے ہیں
وہیں سے درس حسن و عشق کا آغاز ہوتا ہے
جہاں سے واقعات زندگی ہم بھول جاتے ہیں
ہمیں کچھ عشق کے مفہوم پر ہے تبصرہ کرنا
اک آہ سرد کو عنوان شرح غم بناتے ہیں
بہا کر اشک خوں کھینچی تھیں جو آئینۂ دل میں
ہم ان موہوم تصویروں کو اب رنگیں بناتے ہیں
شباب زندگی جلووں کا اک معصوم نظارہ
ہمیں اے دل وہ افسانے ابھی تک یاد آتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |