جہاں اب خار زاریں ہو گئی ہیں
Appearance
جہاں اب خار زاریں ہو گئی ہیں
یہیں آگے بہاریں ہو گئی ہیں
جنوں میں خشک ہو رگ ہائے گردن
گریباں کی سی تاریں ہو گئی ہیں
سنا جاتا ہے شہر عشق کے گرد
مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں
اسی دریاے خوبی کا ہے یہ شوق
کہ موجیں سب کناریں ہو گئی ہیں
انہیں گلیوں میں جب روتے تھے ہم میرؔ
کئی دریا کی دھاریں ہو گئی ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |