جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے
by جلیل مانکپوری

جھوم کر آج جو متوالی گھٹا آئی ہے
یاد کیا کیا تری مستانہ ادا آئی ہے

ایسے نازک کبھی پابند حنا ہوتے ہیں
ہاتھ دھو ڈالے ہیں رنگت جو ذرا آئی ہے

تم بھی رخسار پہ زلفوں کو ذرا بکھرا دو
کالی کالی سر گلزار گھٹا آئی ہے

حسن اخلاق بھی ہے حسن جوانی کی طرح
جھک گئی ہیں تری آنکھیں جو حیا آئی ہے

ہائے وہ کھول کے جوڑا یہ کسی کا کہنا
آئیے سو رہیں اب رات سوا آئی ہے

سچ ہے تم نے جو لگایا نہیں منہ غنچوں کو
انہیں پھر کس کے تبسم کی ادا آئی ہے

کس کا دل خون نہیں ہے چمن عالم میں
پتی پتی سے ہمیں بوئے وفا آئی ہے

رات بھر گریۂ شبنم سے جو غنچے تھے اداس
صبح ہوتے ہی ہنسانے کو صبا آئی ہے

شعر خوانی پہ تری سب کو گماں ہے کہ جلیلؔ
بزم میں روح امیر الشعرا آئی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse