جھولا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جھولا
by اختر شیرانی

آیا ساون کا مہینہ نظر آیا جھولا
دل کو بھایا مری آنکھوں میں سمایا جھولا
سال بھر رہ کے بہشتوں کی فضا میں مہماں
ابر کی گود میں بیٹھا ہوا آیا جھولا
چولی دامن کا سا ہے ساتھ گھٹا کا اس کا
اس طرف آئی گھٹا اس طرف آیا جھولا
رت ہے جھولے کی نہ کیوں آج خدائی جھولے
ننھی کلیوں کو ہواؤں نے جھلایا جھولا
پینگ بڑھنے لگی آنچل کو گھٹا کے چھونے
باغ میں سکھیوں نے اس طرح جھلایا جھولا
جھومتی آتی ہیں مستانہ گھٹائیں کیسی
ڈھونڈ کر ہے انہیں کس دیس سے لایا جھولا
گیت سن سن کے گھٹائیں بھی بہک اٹھی ہیں
مل کے سکھیوں نے کچھ اس دھوم سے گایا جھولا
پھول ہلتے ہیں ادھر شاخ لچکتی ہے ادھر
یا بہاروں کو ہے قدرت نے جھلایا جھولا
دور پردیس میں ہم کس کو جھلائیں اخترؔ
حسرت و یاس کا پیغام ہے لایا جھولا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse