جھمک دکھاتے ہی اس دل ربا نے لوٹ لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جھمک دکھاتے ہی اس دل ربا نے لوٹ لیا
by نظیر اکبر آبادی

جھمک دکھاتے ہی اس دل ربا نے لوٹ لیا
ہمیں تو پہلے ہی اس کی ادا نے لوٹ لیا

نگہ کے ٹھگ کی لگاوٹ نے فن سے کر غافل
ہنسی نے ڈال دی پھانسی دعا نے لوٹ لیا

وفا جفا نے یہ کی جنگ زر گری ہم سے
وفا نے باتوں لگایا جفا نے لوٹ لیا

لٹے ہم اس کی گلی میں تو یوں پکارے لوگ
کہ اک فقیر کو اک بادشا نے لوٹ لیا

ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک آشنا نے لوٹ لیا

ہزاروں قافلے جس شوخ نے کیے غارت
نظیرؔ کو بھی اسی بے وفا نے لوٹ لیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse