جگ ہے مشتاق پیو کے درشن کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جگ ہے مشتاق پیو کے درشن کا
by داؤد اورنگ آبادی

جگ ہے مشتاق پیو کے درشن کا
کس کوں نیں احتیاج درپن کا

صاف دل ہے جو آرسی مانند
نت ہے حیراں جمال روشن کا

گرچہ ہونا ہے عیب پوشی جہاں
کسب کر اختیار سوزن کا

کیوں نہ ہوئے عاشقی میں خوف رقیب
ہر سفر میں خطر ہے رہزن کا

زہد زاہد ہے خوف محشر سوں
تاب نامرد کوں کہاں رن کا

خاک ہو یار کی گلی مت چھوڑ
گرچہ کچھ مدعا ہے دامن کا

صبر کر ہجر میں توں اے داؤدؔ
دیکھنا ہے اگر سریجن کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse