جگ ہے مشتاق پیو کے درشن کا
Appearance
جگ ہے مشتاق پیو کے درشن کا
کس کوں نیں احتیاج درپن کا
صاف دل ہے جو آرسی مانند
نت ہے حیراں جمال روشن کا
گرچہ ہونا ہے عیب پوشی جہاں
کسب کر اختیار سوزن کا
کیوں نہ ہوئے عاشقی میں خوف رقیب
ہر سفر میں خطر ہے رہزن کا
زہد زاہد ہے خوف محشر سوں
تاب نامرد کوں کہاں رن کا
خاک ہو یار کی گلی مت چھوڑ
گرچہ کچھ مدعا ہے دامن کا
صبر کر ہجر میں توں اے داؤدؔ
دیکھنا ہے اگر سریجن کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |