جگر اور دل کو بچانا بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جگر اور دل کو بچانا بھی ہے
by مجاز لکھنوی

جگر اور دل کو بچانا بھی ہے
نظر آپ ہی سے ملانا بھی ہے

محبت کا ہر بھید پانا بھی ہے
مگر اپنا دامن بچانا بھی ہے

جو دل تیرے غم کا نشانہ بھی ہے
قتیل جفائے زمانہ بھی ہے

یہ بجلی چمکتی ہے کیوں دم بدم
چمن میں کوئی آشیانہ بھی ہے

خرد کی اطاعت ضروری سہی
یہی تو جنوں کا زمانا بھی ہے

نہ دنیا نہ عقبیٰ کہاں جائیے
کہیں اہل دل کا ٹھکانا بھی ہے

مجھے آج ساحل پہ رونے بھی دو
کہ طوفان میں مسکرانا بھی ہے

زمانے سے آگے تو بڑھیے مجازؔ
زمانے کو آگے بڑھانا بھی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse