جُو تُو کہتا ہے اے غافل یہ مرا ہے یہ ترا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جُو تُو کہتا ہے اے غافل یہ مرا ہے یہ ترا ہے
by نظیر اکبر آبادی

جُو تُو کہتا ہے اے غافل یہ مرا ہے یہ ترا ہے
یہ جس کا ہے اسی کا ہے نہ ترا ہے نہ مرا ہے

تُو اول سوچ تُو دِل میں کے تُو ہے کُون اور کیا ہے
نمازی ہے شرابی ہے اچکا ہے لٹیرا ہے

فرشتہ ہے پری ہے دیو ہے یا آدمی جن ہے
بلا ہے بھوت ہے یامن مزورا یا کمیرا ہے

جب ان چیزوں سے تُو اپنے تئیں کچھ چیز ٹھہرا لے
تُو اِس کہ بعد پھر کہیو یہ مرا ہے یہ ترا ہے

یہ چیزیں تُو غرض کیا ہیں تُو اپنا ہی نہیں مالک
تُجھے او بے خبر ناداں یہ کس غفلت نے گھیرا ہے

تُو کچے سوت کا دھاگا عبث بل پیچ کھاتا ہے
یہ سب وہم غلط ہے اُور قصور فہم ترا ہے

تُو کیا جانے کے تُجھ کو کس نے کس چرخے میں کاتا ہے
تُو کیا جانے کے تُجھ کو کس اٹیرن میں اٹیرا ہے

تماشا ہے مزا ہے سیر ہے کیا کیا اہاہاہا
مصور نے عجب کچھ رنگ قدرت کا بکھیرا ہے

ترقی میں تنزل ہے تنزل میں ترقی ہے
اندھیرے میں اجالا ہے اجالے میں اندھیرا ہے

طلسمات حقیقی ہے یہ کچھ سمجھا نہیں جاتا
یہی چاند اُور یہی سورج یہی شام اُور سویرا ہے

نظیرؔ اللہ اللہ اس جہاں میں دم غنیمت ہے
کہاں ہم اُور کہاں پھر تم کوئی دم کا بسیرا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse