جو ہے عرش پر وہی فرش پر کوئی خاص اس کا مکاں نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو ہے عرش پر وہی فرش پر کوئی خاص اس کا مکاں نہیں
by قدر بلگرامی

جو ہے عرش پر وہی فرش پر کوئی خاص اس کا مکاں نہیں
وہ یہاں بھی ہے وہ وہاں بھی ہے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں

یہ نصیب تیرے شہید کا کہ کمال شوق تھا دید کا
جو گلا بھی ہے تو وہ تر نہیں جو چھری بھی ہر تو رواں نہیں

میں وہ سرو باغ وجود ہوں میں وہ گل ہوں شمع حیات کا
جسے فصل گل کی خوشی نہیں جسے رنج باد خزاں نہیں

جو اٹھے تو سینہ ابھار کر جو چلے تو ٹھوکریں مار کر
نئے آپ ہی تو جوان ہیں کوئی کیا جہاں میں جواں نہیں

کدھر اڑ گیا مرا قافلہ کہ زمین پھٹ کے سما گیا
نہ غبار اٹھا نہ جرس بجا کہیں نقش پا کا نشاں نہیں

یہ مے فرنگ کی کشتیاں بھی سفینہ ہائے نجات ہیں
کبھی اس کا بیڑا نہ پار ہو جو مرید پیر مغاں نہیں

اٹھو قدرؔ ان پہ نہ جان دو اجی جان ہے تو جہان ہے
کوئی کام ایسا بھی کرتا ہے ارے میاں نہیں ارے میاں نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse