جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی
by حکیم محمد اجمل خاں شیدا

جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی
مرے مدعا پر نہیں ہو چکی

برا ہو مری ناتوانی ترا
نگاہ دم واپسیں ہو چکی

امید کرم کچھ نہ ساقی سے رکھ
کہ اب وہ مے ساتگیں ہو چکی

سناؤں اگر تا قیامت تو کیا
کہانی مری دل نشیں ہو چکی

کروں کس طرح اب میں عرض نیاز
کہ باقی ہے در اور جبیں ہو چکی

تراوش کہاں زخم دل میں وہ اب
کہیں کچھ رہی ہے کہیں ہو چکی

بس اب ہاتھ سے رکھ دو شیداؔ قلم
تمہاری غزل کی زمیں ہو چکی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse