جو ہوا ہے صورت باد مخالف تیز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو ہوا ہے صورت باد مخالف تیز ہے
by رشید لکھنوی

جو ہوا ہے صورت باد مخالف تیز ہے
دل کا میداں ہے کہ اک صحرائے آفت خیز ہے

میرے ساقی دم بہ دم کیوں کر بھرا آئے نہ دل
دور ہوں میں اور ساغر بزم میں لبریز ہے

دکھ اٹھانے کی بھی آخر ہوتی ہے کچھ انتہا
بلبل دل کا مرے نغمہ بھی دردانگیز ہے

آمد آمد ہے خزاں کی کیوں نہ روئے عندلیب
گل ابھی نو کار ہیں سبزہ ابھی نوخیز ہے

تیرے وحشی جاتے ہیں افتان و خیزاں سوئے دشت
ہو جنوں دیکھے سے ایسی چال وحشت خیز ہے

کیوں نہ روئیں سیکڑوں طوفان اٹھے چاہ میں
ہم نہ واقف تھے کہ بحر عشق طوفاں خیز ہے

آب خنجر تو ملا دے تو چھلک جائے ابھی
عمر کا ساغر یہاں اک عمر سے لبریز ہے

اس پہ مرتا ہوں مرے مرنے کی ہے جس کو خوشی
عارضہ وہ ہے کہ جس سے موت کو پرہیز ہے

تخم الفت کا زمین دل میں بونا کیا ضرور
لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو خود محبت خیز ہے

ہو جہاں معشوق واں عاشق بھی ہوتا ہے ضرور
یاں یوں ہی روز ازل سے حسن و عشق آمیز ہے

نزع میں بھی ماتم دل ہے تلاش یار ہے
پاؤں ہیں چالاک اب تک ہاتھ اب تک تیز ہے

کس تکلف سے نباہی میں نے الفت آپ کی
فخر کرتا ہوں کہ میرا عشق حسن آمیز ہے

کاٹ کے سر میرا تم نے ہاتھ میں لٹکا دیا
دیکھو یہ میری وفاداری کی دستاویز ہے

کر دیا ہے مست سارے خفتگان خاک کو
کیا ہوا شہر خموشاں کی نشاط انگیز ہے

ہے رشیدؔ اب تک گیاہ لکھنؤ مردم گیاہ
کیا زمیں ہے جو اجڑ جانے پہ مردم خیز ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse