جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ
by میر محمدی بیدار

جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ
جام مے ہاتھ سے لو میرے پیو بسم اللہ

منتظر آپ کے آنے کا کئی دن سے ہوں
کیا ہے تاخیر قدم رنجہ کرو بسم اللہ

لے چکے دل تو پھر اب کیا ہے سبب رنجش کا
جی بھی حاضر ہے جو لیتے ہو تو لو بسم اللہ

میں تو ہوں کشتۂ ابروئے بت مصحف رو
مو قلم سے مرے تربت پہ لکھو بسم اللہ

ذبح کرنا ہی مجھے تم کو ہے منظور اگر
میں بھی حاضر ہوں مری جان اٹھو بسم اللہ

ہوتے آزردہ ہو آنے سے ہمارے جو تم
خوش رہو مت ہو خفا ہم چلے لو بسم اللہ

عین راحت ہے مجھے بندہ نوازا اس میں
قدم آنکھوں پہ مری آ کے رکھو بسم اللہ

جن کی رہتے ہو شب و روز تم اب صحبت میں
جاؤ اے جان اب ان کے ہی رہو بسم اللہ

مست نکلا ہے مئے حسن میں بیدارؔ وہ شوخ
دیکھنا گر نہ پڑے کہتے چلو بسم اللہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse