جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی
by ریاض خیرآبادی

جو ہم آئے تو بوتل کیوں الگ پیر مغاں رکھ دی
پرانی دوستی بھی طاق پر اے مہرباں رکھ دی

قفس میں شاخ گل صیاد نے اے آسماں رکھ دی
بنا کر شاخ گل ہاں تیری شاخ کہکشاں رکھ دی

یہ کیسی آگ بھر کر جام میں پیر مغاں رکھ دی
جو توڑی مہر ساغر سے تو کچھ اٹھا دھواں رکھ دی

ذرا چھیڑا جو اس نے ہو گئی ایسی زخود رفتہ
کہ شمع بزم نے گلگیر کے لب پر زباں رکھ دی

خدا کے ہاتھ ہے بکنا نہ بکنا مے کا اے ساقی
برابر مسجد جامع کے ہم نے اب دکاں رکھ دی

چمن کا لطف آتا ہے مجھے صیاد کے صدقے
قفس میں لا کے اس نے آج شاخ آشیاں رکھ دی

بنا ہے ایک ہی دونوں کی کعبہ ہو کہ بت خانہ
اٹھا کر خشت خم میں نے وہاں رکھ دی یہاں رکھ دی

یہ قیس و کوہ کن کے سے فسانے بن گئے کتنے
کسی نے ٹکڑے ٹکڑے سب ہماری داستاں رکھ دی

تعین سے منزہ شوخیاں ہیں اس کے جلوے کی
ہماری وسعت دل میں بنائے لا مکاں رکھ دی

نظر مدت سے تھی اے شیخ جس پر مے فروشوں کی
وہ دستار فضیلت رہین ہم نے مہرباں رکھ دی

یہ کیا تھا جلوہ ان کا دیکھنا تھا ہم کو پردے میں
لگا کر آنکھ سے ہم نے جو تصویر بتاں رکھ دی

یہ عالم ہے ریاضؔ ایک ایک قطرے کو ترستا ہوں
حرم میں اب بھری بوتل خدا جانے کہاں رکھ دی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse