جو گل ہے یاں سو اس گل رخسار ساتھ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو گل ہے یاں سو اس گل رخسار ساتھ ہے
by مرزا محمد رفیع سودا

جو گل ہے یاں سو اس گل رخسار ساتھ ہے
کیا گل ہے وہ کہ جس کے یہ گل زار ساتھ ہے

تو مست شب اندھیری اور اغیار ساتھ ہے
جو دل میں آوے کہہ یہ گنہ گار ساتھ ہے

خاموش عندلیب چمن تجھ سے کیا ہے بحث
اپنا سخن تو مرغ گرفتار ساتھ ہے

پیغام اس نگہ کا کہ جس میں ہے بوئے مہر
کیا جانے کس کے آخری دیدار ساتھ ہے

عقدہ نہ یہ کھلا کہ مرے دل سا پہلوان
تجھ زلف کے بندھا ہوا اک تار ساتھ ہے

کرتے تو ہو مرے مرض دل کا تم علاج
یارو جو دل یہی ہے تو آزار ساتھ ہے

سوداؔ کے ہاتھ کیوں کے لگے وہ متاع حسن
لے نکلیں جس کو گھر سے تو بازار ساتھ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse