جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
by مرزا محمد رفیع سودا

جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا

پہنچ چکا ہے سر زخم دل تلک یارو
کوئی سبو کوئی مرہم رکھو ہوا سو ہوا

کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بے رحم
یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ درگزر گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تند خو ہوا سو ہوا

یہ کون حال ہے احوال دل پہ اے آنکھو
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو ہوا سو ہوا

نہ کچھ ضرر ہوا شمشیر کا نہ ہاتھوں کا
مرے ہی سر پہ اے جلاد جو ہوا سو ہوا

دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سوداؔ
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو ہوا سو ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse