جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے
by محمد ابراہیم ذوق

جو کچھ کہ ہے دنیا میں وہ انساں کے لیے ہے
آراستہ یہ گھر اسی مہماں کے لیے ہے

زلفیں تری کافر انہیں دل سے مرے کیا کام
دل کعبہ ہے اور کعبہ مسلماں کے لیے ہے

ہو قید تفکر سے کب آزاد سخن ور
منظور قفس مرغ خوش الحاں کے لیے ہے

اپنوں سے نہ مل اپنے ہیں سب اپنوں کے دشمن
ہر نے میں بھری آگ نیستاں کے لیے ہے

کچھ بخت سے میرے جو سوا ہے وہ سیاہی
باقی ہے تو میری شب ہجراں کے لیے ہے

دیوانہ ہوں میں بھی وہ تماشا کہ مرا ذکر
گویا سبق اطفال دبستاں کے لیے ہے

ہے بادہ کشوں کے لیے اک غیب سے تائید
زاہد جو دعا مانگتا باراں کے لیے ہے

چنگل میں ہے موذی کے دل اس چشم کے ہاتھوں
گھیرا یہ غضب پنجۂ مژگاں کے لیے ہے

میں کس کی نگاہوں کا ہوں وحشی کہ مری خاک
اک کحل بصر چشم غزالاں کے لیے ہے

دل بھی ہے بلا قابل مشق ستم و ناز
جو تیر ہے اس تودۂ طوفاں کے لیے ہے

نکلے کوئی کیا قید علائق سے کہ اے ذوقؔ
در ہی نہیں اس خانۂ زنداں کے لیے ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse