جو کچھ کہ تم سیں مجھے بولنا تھا بول چکا
Appearance
جو کچھ کہ تم سیں مجھے بولنا تھا بول چکا
بیان عشق کے طومار کوں میں کھول چکا
ازل سیں مجھ کوں دیا درد صانع تقدیر
مرے نصیب کے شربت میں زہر گھول چکا
جنوں کے شہر میں نہیں کم عیار کوں حرمت
میں نقد قلب کوں کانٹے میں دل کے تول چکا
مجھے خرید کیے تم نے کم نگاہی سیں
کمینہ بندۂ بے زر کا آج مول چکا
نہیں رہا سخن آب دار کا موتی
سراجؔ طبع کے سب جوہروں کوں رول چکا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |