Jump to content

جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے

From Wikisource
جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے
by فرحت کانپوری
318319جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہےفرحت کانپوری

جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے
عالم تمام ایک طلسم وجود ہے

آرائش نمود سے بزم جمود ہے
میری جبین شوق دلیل سجود ہے

ہستی کا راز کیا ہے غم ہست و بود ہے
عالم تمام دام رسوم و قیود ہے

عکس جمال یار سے وہم نمود ہے
ورنہ وجود خلق بھی خود بے وجود ہے

اب کشتگان شوق کو کچھ بھی نہ چاہیئے
فرش زمیں ہے سایۂ چرخ کبود ہے

ہنگامۂ بہار کی اللہ رے شوخیاں
زاغ و زغن کا شور بھی صوت و سرود ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.