جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
by نظام رامپوری

جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
جو کچھ کہوں تو کہیں قینچی ہے زباں منہ میں

یہ ایک بات ہے قاصد جو بھیجتا ہوں تجھے
وگرنہ دل میں جو ان کے ہے وہ یہاں منہ میں

زمیں کا کر دیا پیوند ہم کو اے ظالم!
نہ اب بھی خاک پڑے تیرے آسماں منہ میں

نہ کان رکھ کے کسی نے سنی ہزار افسوس
تمام عمر رہی غم کی داستاں منہ میں

وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کہ دانت پیستے ہیں
ہم ایسے چپ ہیں کہ گویا نہیں زباں منہ میں

یہ بات کیا ہے جو ہونٹوں میں بڑبڑاتے ہو
کہو نہ شوق سے جو آئے میری جاں منہ میں

ڈرو اثر سے خدا جانے کیا ہو کیا کچھ ہو
گھٹا ہوا ہے ابھی آہ کا دھواں منہ میں

کبھی گرانے نہ دو آنسو حال پر میرے
لو آؤ پانی تو ٹپکاؤ میری جاں منہ میں

زبان پر ہے یہ کس کس کی تذکرہ اپنا
پڑی ہے بات نہ میری کہاں کہاں منہ میں

پھر ایسے وعدے سے تسکیں ہو کس طرح میری
نہیں ہے دل میں تمہارے اگر ہے ہاں منہ میں

اسی کا دھیان ہے جب تک کہ تن میں جاں ہے نظامؔ
اسی کا ذکر ہے جب تک کہ ہے زباں منہ میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse