جو پوچھا کیا مریض غم کا درماں ہو نہیں سکتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو پوچھا کیا مریض غم کا درماں ہو نہیں سکتا
by بوم میرٹھی

جو پوچھا کیا مریض غم کا درماں ہو نہیں سکتا
تو سالے نے کہا ہنس کر کے ہاں ہاں ہو نہیں سکتا

بس اب بارہ برس کے ہو گئے ختنہ کرا ڈالو
مسلمانی نہ ہو جس کی مسلماں ہو نہیں سکتا

نہ ہوگا قیس تو اس کی جگہ ہم جانشیں ہوں گے
کہ دیوانوں سے یہ خالی بیاباں ہو نہیں سکتا

کہو چارہ گروں سے ایک دم باہر نکل جائیں
کبھی ان سے مریض غم کا درماں ہو نہیں سکتا

پڑیں جوتے ہزاروں سر پہ لیکن میں نہ نکلوں گا
تیرے کوچہ کے ہمسر باغ رضواں ہو نہیں سکتا

ابے صیاد کیوں جھوٹی تسلی مجھ کو دیتا ہے
قفس میں پھول رکھنے سے گلستاں ہو نہیں سکتا

شب وعدہ جو کرنا تھا میں کرتا ہی رہا ان سے
وہ کہتے ہی رہے پورا یہ ارماں ہو نہیں سکتا

لگا دے آگ ان کے گھر میں اور دشمن کے چھپر میں
ذرا سا کام تجھ سے آہ سوزاں ہو نہیں سکتا

حکیم و ڈاکٹر کو بومؔ صاحب کیوں بلاتے ہو
کبھی ان سے علاج درد ہجراں ہو نہیں سکتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse