جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا
by نظیر اکبر آبادی

جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا
تو سن کر یوں کہا یہ بات دل سے دور رکھیے گا

بہت روئیں یہ آنکھیں اور پڑی دن رات روتی ہیں
اب ان کو چشم بھی کیجے گا یا ناسور رکھیے گا

جو پردہ بزم میں منہ سے اٹھاتے ہو تو یہ کہہ دو
کہ پھر یاں شمع کے جلنے کا کیا مذکور رکھیے گا

دیا دل ہم نے تم کو اور تو اب کیا کہیں لیکن
یہ ویرانہ تمہارا ہے اسے معمور رکھیے گا

نظیرؔ اب تو دل و جاں سے تمہارا ہو چکا بندہ
میاں اپنے غلاموں میں اسے مشہور رکھیے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse