جو پنہاں تھا وہی ہر سو عیاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو پنہاں تھا وہی ہر سو عیاں ہے
by گویا فقیر محمد

جو پنہاں تھا وہی ہر سو عیاں ہے
یہ کہیے لن ترانی اب کہاں ہے

جو پہنچے ہاتھ زنجیروں کو توڑیں
گرچہ پاؤں اپنا درمیاں ہے

چمک لعل بدخشاں کی مٹا دے
ترے ہونٹوں پہ ایسا رنگ پاں ہے

تجھے کہتا ہوں سن او وحشت دل
وہاں لے چل جہاں وہ دل ستاں ہے

وہ ہوں نازک مزاج اے ہم صفیرو
رگ گل مجھ کو خار آشیاں ہے

موا جاتا ہوں میں طرز نگہ سے
ترے لب کی مسیحائی کہاں ہے

بلا کر اس سے دو باتیں تو سن لے
یہ کہتے ہیں کہ گویاؔ خوش بیاں ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.