جو میرا لے گیا دل کون وہ انسان ہے کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو میرا لے گیا دل کون وہ انسان ہے کیا ہے
by قاسم علی خان آفریدی

جو میرا لے گیا دل کون وہ انسان ہے کیا ہے
پری ہے یا ملک یا حور یا غلمان ہے کیا ہے

نظر زلفوں پہ اس کی جا پڑی جس کی لگا کہنے
یہ دونوں سانپ ہیں یا کاکل پیچان ہے کیا ہے

گیا ہوں بھول سب کچھ دختر رز جیسے ہاتھ آئی
جگر ہے جان ہے ایمان ہے ایقان ہے کیا ہے

ہمارے یار کے کچھ درمیاں جو بات بول اٹھے
رقیب رو سیہ غماز یا شیطان ہے کیا ہے

زمیں پر جھانکتے ہیں روز و شب افلاک سے کس کو
مہ و خور یا کسی کا دیدۂ حیران ہے کیا ہے

مرے رونے کو دیکھا ہجر میں جس نے سو یوں بولا
جھڑی برسات کی یا موجۂ طوفان ہے کیا ہے

بہ جوش عشق لٹکے ہے نہیں مجھ کو تمیز اتنی
بہ مژگاں لخت دل یا در ہے یا مرجان ہے کیا ہے

مری چھاتی پہ رکھ کر دست کی تشخیص حکما نے
یہ سینہ کان گندھک یا کہ آتش دان ہے کیا ہے

جلے سینہ سے دود اٹھا دماغ آشفتہ کر ڈالا
مکرر دل بھنا یا پھر جگر بریان ہے کیا ہے

نہ بھول اے خضر مر جانا ہے آخر ٹک جیا تو کیا
اگر مادام ہے کیا ہے وگر یک آن ہے کیا ہے

فنا فی الشیخ ہو، تفریق افریدیؔ نہ کر ہرگز
نبی ہے یا علی یا حافظ قرآن ہے کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse